مسلمانوں کے پیشوا کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟
غیبت کے زمانہ میں وہی ” ولایت " رکھ سکتا ہے اور اسی کی طرف لوگ مختلف مسائل میں رجوع کر سکتے ہیں جو دین کے بارے میں کافی آگاہی اور علم رکھتا ہو ۔ زمانہ غیبت میں  مسلمانوں کے حاکم کے لئے علمی صلاحیت اور دین شناسی کا ہونا، اس منصب کی اہم صفات میں سے ایک صفت ہے، جس کا حامل ہونا اس کے لئے ضروری  ہے ۔ ان سب کے علاوہ ایک اہم شرط جو مسلمانوں کے پیشوا کے لئے لازم ہے وہ ” عدالت " ہے  یعنی صرف عاقل، عالم اور خدا کے احکام سے آگاہی ہونا ہی کافی نہیں ہے ۔ صرف وہی شخص بندگان خدا کی رہبری کی صلاحیت رکھتا ہے ، جو متقی، خدا کا خوف رکھنے والا ، با ایمان ، پاکیزہ اور عادل ہو ۔ ان شرائط کو اخلاق اور تقویٰ کی شرطیں کہتے ہیں ۔
جو شخص دنیا پرست ہو، اپنی خواہشات اور نفس کی پیروی کرتا ہو ، ریا کار اور بے تقویٰ ہو ،خدا کے احکام کی پابندی نہ کرتا ہو ، پرہیز گاری ، خلوص اور دینداری نہ رکھتا ہو ، تو ایسا شخص لوگوں کا مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور وہ مسلمانوں کا رہبر اور پیشوا بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔ یہ مقام اور منصب اسی شخص کے لئے مناسب ہے جو اپنی خواہشات اور نفس کی پیروی نہ کرتا ہو اور با تقویٰ ہو ، کیونکہ سماج اور لوگوں کے دین اور دنیا کا اختیار اسی کو دیا جاتا ہے ۔ اگرلوگوں کا پیشوا اور رہبر تقویٰ ، پاکدامنی اور خلوص نہیں رکھتا ہو گا ، تو لوگوں کے دین اور دنیا دونوں ہی کو خطرہ لاحق ہو گا اور کبھی بھی جبران نہ ہونے والا خسارہ اور نقصان ہو جائے گا ۔ اس بارے میں امام حسن عسکری (ع) سے حدیث نقل ہوئی ہے آپ نے فرمایا ہے: فقہاء میں جو اپنے دین کے نگہبان ہوں اور اپنے نفس کی پیروی نہ کرتے ہوں، لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ انہی میں سے کسی کی تقلید کریں ۔